نئی دہلی۔ بھوپال میں جیل سے بھاگے سیمی کے آٹھوں قیدیوں کے انکاؤنٹر کی
تحقیقات کا مطالبہ کرنے کے لئے جماعت اسلامی ہند سامنے آئی ہے۔ جماعت کا
دعویٰ ہے کہ مارے گئے لوگ کمزور کیس ہونے کی وجہ سے جلد رہا ہونے والے تھے۔
لیکن ایک سازش کے تحت انہیں مار ڈالا گیا۔ ہفتہ کو منعقد پریس کانفرنس میں
تنظیم کے جنرل سکریٹری محمد سلیم انجینئر نے کہا کہ بھوپال میں ہوا
انکاؤنٹر بالکل فرضی ہے اور اس فرضی انکاؤنٹر کے پیچھے مدھیہ پردیش حکومت
ہی نہیں، مرکزی حکومت بھی ہے۔ اسی کی رضامندی سے فرضی انکاؤنٹر کو انجام
دیا گیا ہے۔ جلد رہا ہونے والے آٹھ بے گناہوں کا قتل کیا گیا ہے۔ نہ تو
پولیس اور نہ حکومت فرضی انکاؤنٹر پر اٹھ رہے سوالات کا جواب دے رہی ہے۔ نامہ نگاروں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جو خبریں سامنے آ رہی ہیں
اس کے تحت چند سوالات ہمیں پریشان کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ان قیدیوں کے
پاس ہتھیار کہاں سے آئے؟پولس اور وزیر داخلہ کے بیانات میں اتنا تضاد
کیوں ہے؟انہیں نئے کپڑے،گھڑیاں اور جوتے کہاں سے ملے؟ اگر جیل کے باہر کسی
نے انہیں اسلحہ فراہم کیا تو انہیں فرارہونے کے لئے گاڑیوں کا انتظام کیوں
نہیں کیا کہ وہ شہر کی طرف جانے کے بجائے پہاڑیوں کی طرف جا نکلے؟جو پولس
اہلکار زخمی ہوئے ہیں وہ تیز دھار والے ہتھیاروں سے زخمی ہوئے ، جب ان کے
پاس بندوقیں تھیں تو انہوں نے گولیاں کیوں نہیں چلائیں؟تمام ملزمین ایک
ساتھ ہی کیوں تھے۔ علیحدہ فرار ہونے کی کوشش کیوں نہیں کی؟جیل کے الگ الگ
سیلوں سے ایک ہی وقت پر نکل پانے میں کیسے کامیاب ہوگئے؟پولس نے انہیں زندہ
گرفتار کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی جبکہ وہ خودسپردگی کے لئے تیار تھے؟ان
کے وکیل کا بیان ہے کہ ان کے خلاف پولس اب تک کچھ بھی ثابت نہیں کر پائی ہے
اور وہ رہائی کے قریب تھے تو پھر انہوں نے جیل بریک کی کوشش کیوں
کی؟مسٹرسلیم انجینئر نے کہا کہ انکاؤنٹر کے تعلق سے متعدد سوالات ہیں جن
کا جواب اب تک نہیں دیا گیا اور سوال کرنے والوں پر ہی شبہ کیا جا رہا ہے
سکریٹری جنرل نے کہا کہ یہ واقعہ گذشتہ واقعات کے سلسلے کی کڑی نظر آرہی
ہے۔ اس سے قبل خالد مجاہد، قتیل صدیقی اور محمد وقاص کو حراست کے دوران قتل
کردیاگیا تھا۔ جو افراد اس طرح کے واقعہ پر سوالات کھڑے کرتے ہیں انہیں یہ
کہہ کر خاموش کرنے کی کوشش کرنا کہ اس سے پولس کے حوصلے پست ہوتے ہیں
،جماعت اسلامی اس بات کو درست نہیں سمجھتی ہے اور اسے جمہوری قدروں کے خلاف
تصور کرتی ہے ۔سپریم کورٹ نے بھی اپنے سابقہ فیصلے میں کہا ہے کہ
پولس انکاؤنٹرکے نام پر کی گئی ہلاکتوں کی آزادانہ اور منصفانہ جانچ کی
جانی چاہیے۔اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مہلوک ایک عام شہری تھا، دہشت گرد
تھا یا
سخت گیر خیالات کا حامل تھا۔ مزید یہ کہ انکاؤنٹر جیسی کاروائی کسی
ایجنسی کے ذریعہ کی گئی ہو یا ریاست کے ذریعہ اس کی تفتیش کی جانی
چاہئے۔قانون سب کے لئے یکساں ہے اور یہ جمہوریت کی روح ہے ۔اس لئے
جماعت اس انکاؤنٹر کی سپریم کورٹ کی نگرانی میں اعلی سطحی جانچ کا مطالبہ
کرتی ہے تاکہ جیل بریک سے لے کر انکاؤنٹر تک کا سارا معاملہ سامنے آسکے
اور حقیقت سے پردہ اٹھایا جائے نیز خاطیوں کو سخت اور عبرتناک سزائیں دی
جائیں اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
موصوف نے جواہر لعل یونیورسٹی کے ایم ایس سی(بایو ٹکنالوجی)کے
سال اول کے طالب علم نجیب احمد کی طویل گمشدگی پر بھی انتہائی تشویش کا
اظہار کیا۔ نامہ نگاروں سے انہوں نے کہا کہ اس کی گمشدگی سے ایک روزقبل اے
بی وی پی سے منسلک طلبہ کے ساتھ اس کا تنازع ہوا تھا۔ان طلبہ نے اجتماعی
طور پرنجیب کی پٹائی کی تھی۔انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی ہند جے این یو
انتظامیہ کی سرد مہری اور غیر سنجیدگی کی بھی مذمت کرتی ہے اور اسے حیرت ہے
کہ مظلوم طالب علم کی حمایت کے برخلاف ظالموں کی حمایت کی جا رہی ہے
۔انتظامیہ کی سرد مہری کی وجہ سے اب بھی یہ معاملہ معمہ بنا ہوا ہے اور
نجیب کا سراغ اب تک نہیں مل سکا ہے۔
ملک کی سرکردہ جماعت کے سکریٹری جنرل مسٹرسلیم
انجینئر نے کہا کہ یکساں سول کوڈ کو ملک پر زبردستی تھوپنے کی حکومتی کوشش
کی جماعت اسلامی ہند پرزور مخالفت کرتی ہے اور اسے ملک کی سالمیت ، تنوع
اور ہر کسی کو اپنی تہذیب و ثقافت اختیار کرنے کے حق نیز اپنے رسوم و رواج
پر عمل کرنے کے دستوری حق کے لئے خطرہ سمجھتی ہے۔ جماعت یہ محسوس کرتی ہے
کہ موجودہ حکومت پرسنل لاکی آڑ میں آر ایس ایس کی نظریات کو ملک پر
تھوپنا چاہتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہندوستان تنوع سے پرُملک ہے ۔ یہاں
سینکڑوں قبائل آباد ہیں جن کے اپنے رسوم و رواج ہیں،مختلف تہذیب و
ثقافت،مختلف ادیان اور الگ الگ زبانیں بولی جاتی ہیں۔ہر فرقے کی اپنی الگ
روایات ہیں جن کے تحت وہ اپنے عائلی نظام پر عمل کرتے ہیں۔ شادی ،
بیاہ،طلاق،تعدد ازدواج و وراثت کے الگ الگ قوانین ان کے درمیان رائج ہیں
اور وہ صدیوں سے اس پر عمل کرتے آرہے ہیں۔ حکومت ان کی شناخت ان سے نہیں
چھین سکتی اور ان پر زبردستی کسی بھی طرح کا قانون نافذ نہیں کرسکتی۔ ایک اہم معاملے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جماعت اسلامی ہند کے
سکریٹری جنرل مسٹر سلیم انجینئرنے کہا کہ این ڈی ٹی وی کی نشریات پر یک
روزہ پابندی عائد کرنے کے بین وزارتی کمیٹی کے فیصلے کی جماعت اسلامی ہند
پرزور مذمت کرتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ پریس کوملنے والی آزادی کی
صریح خلاف ورزی ہے اور ایمرجنسی کے تاریک دنوں کی یاد تازہ کرنے والی ہے۔